اسلامی دنیا میں نمودار ہونے والے بیسویں صدی کے اھم واقعات
اسلامی
دنیا میں نمودار ہونے والے بیسویں صدی کے اھم واقعات
بیسویں صدی میں اسلامی دنیا میں کئی اہم اور مشہور واقعات پیش آئے جنہوں نے نہ صرف مسلم ممالک بلکہ پوری دنیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان میں سے چند اہم واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
اسلامی معاشی تحریکات کا آغاز
بیسویں
صدی میں اسلامی دنیا میں کئی اسلامی اقتصادی ماڈلز اور تحریکات کی ابتدا ہوئی، جن
میں اسلامی بینکاری اور زکوة کے نظام کی ترویج شامل ہے۔ اسلامی معیشت اور بینکاری
نظام نے مسلمانوں کے درمیان مالیاتی نظام کی اصلاح اور سود سے بچنے کے لیے نئے
راستے فراہم کیا۔ اس کے نتیجے میں اسلامی مالیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔
عثمانی خلافت کا خاتمہ (1924)
عثمانی
خلافت کا خاتمہ 1924 میں ترکی کے صدر کمال اتاترک کی قیادت میں ہوا، اس نے خلافت
کا خاتمہ کر دیا اور ترکی کو ایک جدید قومی ریاست میں تبدیل کردیا اور ترکی میں
سیکولر ملک بنادیا۔ اس اقدام نے اسلامی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا کیونکہ عثمانی
خلافت کو ایک طویل عرصے تک اسلامی دنیا کا روحانی اور سیاسی مرکز سمجھا جاتا تھا۔
اس کے خاتمے کے ساتھ ہی خلافت کا نظام ختم ہوگیا اور ایک نیا دور شروع ہوا۔
سعودی عرب میں اسلامی دعوت کا آغاز (1932)
سعودی
عرب میں الشیخ محمد بن عبد الوہاب کی نظریات پرعمل کرتے ہوئے ایک مذہبی تحریک نے
جنم لیا جس نے سعودی عرب کو اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ
کیا۔ سعودی عرب کی بنیاد میں اسلامی عقیدہ اور دعوت کا مرکز بننے
کی سوچ نے پورے مشرق وسطیٰ میں اس ریاست کی اہمیت کو بڑھایا۔ سعودی عرب کی قیادت
میں اسلامی دنیا میں ایک نیا فکری اور مذہبی رجحان پیدا ہوا۔
انڈونیشیا نے 1945 میں جاپانی حکمرانی کے
بعد ہالینڈ سے آزادی حاصل کی۔ انڈونیشیا کا قیام ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر
عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے ایک اہم علامت تھا۔ انڈونیشیا کا یہ عمل دوسرے مسلم
ممالک کے لیے بھی ایک حوصلہ افزائی باعث بنا۔
1947
میں برطانوی راج کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان آزادی اور ایک لمبے عرصے سے جاری
انگریزوں کے ظلم جبرازادی حاصل ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا،
جو مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں
کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔
پاکستان کا قیام مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے کا سبب بنا اور دنیا بھر
میں مسلم اقوام کے درمیان سیاسی یکجہتی کی بحث کو تقویت ملی۔
1948
میں ملعون ریاست اسرائیل کا قیام ہوا۔ اس کے نتیجے میں فلسطین میں مسلمانوں اور
یہودیوں کے درمیان شدید تنازعات کا آغاز ہوا۔ اس واقعہ نے مسلم دنیا میں غم وغصہ
کی لہر دوڑا دی اور فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد تحریکیں شروع ہو گئیں۔
فلسطین کا مسئلہ آج بھی اسلامی دنیا کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی صورتحال 1948
1948
کے بعد اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزین بن گئے اور دنیا
بھر میں بھٹکنے پر مجبور ہوگئے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کا بحران آج تک عالمی سیاست
میں ایک اہم مسئلہ ہے، جس نے مسلمان ممالک میں داخلی سیاست، انسانی حقوق کی بحث
اور عالمی امداد کی حکمت عملی پر اثرات ڈالے۔
مسجد
اقصیٰ کی آزادی کے لیے کئی تحریکیں اور جنگیں ہوئیں، جن میں 1948، 1956، 1967، اور
1973 کی عرب اسرائیل جنگیں شامل ہیں۔ ان جنگوں اور تحریکوں نے مسلمانوں کو سیاسی
طور پر متحرک کیا اور اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے
آواز بلند کی۔ ان جنگوں میں مسلمان ملکوں کے درمیان اتحاد اور اختلافات کو دیکھا
گیا۔
مصر میں انقلاب (1952)
1952
میں مصر میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں ایک فوجی انقلاب آیا جس کی قیادت
جمال عبد الناصر نے کی۔ اس انقلاب کے نتیجے میں مصر میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور
ایک جدید سوشلسٹ حکومت قائم کی گئی۔ یہ انقلاب عرب دنیا میں ایک علامت بن گیا اور
دیگر مسلم ممالک میں بھی حکومتوں کی تبدیلی کی تحریکوں کو فروغ دیا۔ ناصر نے عرب
قومیت اور سوشلسٹ اقتصادی نظریات کو فروغ دیا۔
پٹرولیم کی قیمتوں میں انقلاب (1973)
سن
1973 میں عرب دنیا نے اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ
کر دیا اور مغربی ممالک کے خلاف تیل کا ہتھیاراستعمال کیا۔ اس اقدام نے دنیا بھر
میں تیل کی قیمتوں میں شدید اضافہ کر دیا اور عالمی سطح پر اقتصادی بحران پیدا
ہوگیا۔ اسلامی دنیا نے توانائی کے وسائل پر اپنی اجارہ داری کا مظاہرہ کیا، جس سے
عرب ممالک کا عالمی سیاست میں اثر و رسوخ بڑھا۔
بیروت کی خانہ جنگی (1975-1990)
1975
سے 1990 تک لبنان
میں خانہ جنگی ہوئی جس میں مختلف فرقے اور سیاسی گروہ آپس میں لڑے۔ اس خانہ جنگی نے لبنان کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی
صورتحال کو شدید متاثر کیا۔ بیروت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے
درمیان فرقہ واریت کی سطح بڑھ گئی اور عالمی سطح پر لبنان کے تنازعہ نے مشرق وسطیٰ
کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنایا۔
1979میں ایران میں آیت اللہ روح اللہ
خمینی کی قیادت میں ایک اسلامی انقلاب آیا جس کے نتیجے میں شاہ ایران کو معزول کر
کے ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ بنایا گیا۔ ایران کے انقلاب نے اسلامی دنیا میں
ایک نیا نظریہ پیش کیا جو سیکولر حکمرانی کے مقابلے میں ایک اسلامی حکومت کے قیام
کی بات کرتا تھا۔ اس انقلاب نے پورے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کو متحرک کیا اور
اسلامی حکومتوں کے لیے ایک نیا ماڈل پیش کیا۔
1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا،
جس کا مقصد اس خطے میں کمیونزم کا پھیلاؤ تھا۔ اس جنگ نے افغانستان کو تباہی کی
طرف دھکیل دیا اور اسلامی جہاد کی تحریک کو تقویت دی۔ اس جنگ میں عالمی سطح پر
مسلمانوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لیا، اور یہ واقعہ اسلامی جہاد کی
تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔
1980 میں ایران اور عراق کے درمیان جنگ شروع ہوئی جس میں
دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔ یہ جنگ
پورے خطے میں ایک طویل مدت تک بدامنی کا باعث بنی۔ اس جنگ کے اثرات نے ایران اور
عراق کے اندرونی مسائل کو بڑھا دیا اور ان ممالک کی اقتصادی حالت کو متاثر کیا۔
1988
میں اسامہ بن لادن اور دیگر جہادی رہنماؤں نے القاعدہ کی بنیاد رکھی، جو بعد میں
عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم کے طور پر جانی گئی۔ القاعدہ کی سرگرمیاں، خصوصاً 9/11 کے حملے نے عالمی سیاست کو یکسر بدل دیا جس
کے نتیجہ میں عالمی سطح پر اسلام کے خلاف ردعمل ظہور پزیر ہوا۔
1990 کی دہائی میں طالبان نے
افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی، اور القاعدہ نے عالمی سطح پر حملے شروع کیے۔ اس
واقعہ نے عالمی سطح پرمسلمانوں اوراسلام کے بارے میں ایک متنازعہ تاثر پیدا کیا،
اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نئی تحریک کا آغاز ہوا۔
خلیجی جنگ (1990-1991)
1990 میں عراق نے کویت
پر حملہ کیا، جس کے بعد مغربی اتحادیوں کی قیادت میں ایک بین الاقوامی فوج نے عراق
کے خلاف کارروائی کی۔ اس جنگ نے خلیج میں موجود اسلامی ممالک کے درمیان سیاسی
تعلقات اورعالمی سطح پر اسلامی دنیا کی پوزیشن کو متاثر کیا۔ عراق پر حملہ اور اس
کے نتائج نے مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی پیدا کی۔
2011
میں شام میں آبادی کے حقوق اور آزادی کے لیے تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ شام کی
خانہ جنگی نے پورے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام میں مبتلا کیا، لاکھوں افراد بے گھر
ہوئے اور کئی مسلمان شدت پسند تنظیموں کی طرف راغب ہوئے۔ اس جنگ نے عالمی طاقتوں
کو بھی اس خطے میں مداخلت پر مجبور کیا۔
2015
میں سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی، جو ایران کی
حمایت کے حامل تھے۔ یہ جنگ پورے خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی اورسعودی ایران تنازعہ
کو مزید بڑھا رہی ہے۔ یمن کی خانہ جنگی نے انسانی بحران کو جنم دیا اور دنیا بھر
میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش بڑھا دی۔

Comments
Post a Comment
Well come to my blog.