سیمانچل کی ادبی وراثت میں غیر سیمانچلی شعراء و ادباء کا حصہ


بسلسلہ : سیمانچل ۔۔۔ ادب کا گہوارہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیمانچل کی ادبی وراثت میں غیر سیمانچلی شعراء و ادباء کا حصہ 
( قسط :- اول )
  پورنیہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم پورنیہ یا سیمانچل کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ عہدِ قدیم سے ہی اس خطہء ارض کو کافی شہرت حاصل رہی ہے ۔ مہا بھارت کال میں اس خطے پر یا اس کے بیشتر حصے پر نیپالی راجا بیراٹھ کی حکومت قائم تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ پانڈؤں نے اپنے اگیات واس کے زمانہ میں اپنی شناخت مخفی رکھ کر راجا بیراٹھ کے یہاں ملازمت کی ۔ نیپال کا شہر براٹ نگر راجا بیراٹھ کی داستانِ شہرت آج بھی بیان کر رہا ہے ۔ سیمانچل میں بیر پور ، بھیم نگر وغیرہ جیسے جگہوں کے نام کثرت سے ملتے ہیں ۔ جلال گڑھ کے پاس " سیما " گاؤں واقع ہے ۔ سیما کے معنی ہیں سرحد ۔ گویا کہ پرانے زمانے میں یہ ہندوستان اور نیپال کی سرحد ہوا کرتی تھی ۔ فوجداروں کے عہد میں کھگڑا کے نواب سید جلال نے پورنیہ کے فوجدار اسفند یار خاں کے حکم پر 1020 ھ میں اپنے نام پر جلال گڑھ کے قلعہ کی تعمیر کی ۔ اس قلعے کی تعمیر کا مقصد نیپالی یورش کا سدباب تھا کیونکہ نیپالی گورکھے / کھوکھر وغیرہ اکثر ہندوستانی سرحد کے اندر آکر لوٹ پاٹ کیا کرتے تھے ۔ سید جلال نے نیپالیوں سے زبردست جنگ کی اور انہیں بری طرح پسپا کیا ۔ اس خوشی میں شہنشاہ جہانگیر نے سید جلال کو راجہ سید جلال الدین محمد خان بہادر کا خطاب عطا کیا ۔ نیپال سے نئے جنگ بندی کا معاہدہ عمل میں آیا ۔ نئ سرحد قائم ہوئی ۔ جس مقام پر جنگ بندی کے عمل کا نفاذ ہوا وہ مقام اب ' جوگ بنی ' کہلاتا ہے جو لفظ جنگ بندی کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔ جوگبنی آج بھی ہند و نیپال کی سرحد پر بسا ایک چھوٹا سا شہر ہے جسے پار کر نیپال کے شہر براٹ نگر میں داخل ہوتے ہیں ۔ 
قدیم روایات کے مطابق ست یگ میں " نرسنگھ اوتار " کا مشہور واقعہ بھی یہیں پیش آیا تھا ۔ اس واقعہ میں خود کو ایشور کہلانے والے راجا ہرنیہ کشیپ کا ناش بھگوان وشنو نے نر + سنگھ یعنی شیر نما انسان کا اوتار دھارن کر کیا تھا ۔ روایت ہے کہ اس واقعہ میں راجا ہرنیہ کشیپ کی بہن ہولیکا آگ میں جل مری تھی جبکہ ایشور پر وشواس رکھنے والا راجا ہرنیہ کشیپ کا کم عمر بیٹا پرہلاد معجزاتی طور پر بالکل محفوظ رہا تھا ۔ راجا ہرنیہ کشیپ کا محل تو ملیامیٹ ہو چکا مگر قصبہ ' بن منکھی ' کے قریب "سِکلی گڑھ دھرہرا " نامی جگہ پر اس ستون یا دیوار کا ایک حصہ آج بھی محفوظ ہے ۔ یہاں ہر سال ہولی کے موقع سے میلہ لگا کرتا ہے اور ہولیکا دہن کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے ۔ 
فوجداروں کے عہدِ حکومت میں شہر " گور " صوبہء بنگالہ کی راجدھانی تھی ۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے یہ شہر ویران ہو گیا ۔ گور قدیم پورنیہ ضلع کا ہی ایک حصہ تھا ۔ اس کے کھنڈر صوبہء بنگال کے شہر مالدہ کے قریب واقع ہیں ۔ فوجداروں کے عہدِ حکومت میں اس خطہ میں علم و ادب کا چرچا پروان چڑھا ۔ اسی زمانے میں صوفیائے کرام نے بھی اس خطے پر بطور خاص توجہ فرمائ اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہوا ۔ مہسوں اور پنڈوا شریف وغیرہ صوفیائے کرام کے مرکز بنے ۔ حضرت شیخ تقی الدین مہسوی ، حضرت شیخ سلیمان مہسوی ، مخدوم حسین غریب دھکڑ پوش مہسوی ، حضرت جلال الدین تبریزی ، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی، حضرت مخدوم نور قطب عالم پنڈوئ اور حضرت مصطفیٰ جمال الحق ( چمنی بازار) وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہستیاں ہیں ۔ ان میں سے کئ صاحبِ تصنیف بھی ہیں ۔
بقول جناب اکمل یزدانی جامعی " علمی و ادبی اور صحافتی خدمات کے لحاظ سے بھی یہ ضلع دوسرے ضلعوں سے کم نہیں رہا ۔ اس ضلع میں علم و ادب کا چرچا کوئ نئ بات نہیں ہے ۔ اس نے نواب سعید احمد صولت جنگ اور شوکت جنگ جیسے فوجداروں کی فوجداری میں رہنے کا شرف حاصل کیا جو علم و ادب کی سرپرستی کے لحاظ سے آل انڈیا شہرت کے مالک ہیں ۔ یہ وہ فوجدار ہیں جن کا تذکرہ " مربیانِ سخن " کے زیر عنوان ' شعر الہند ' میں آیا ہے ۔ 
پورنیہ کی سب سے قدیم تصنیف " بدیادھر " شیخ کفایت اللہ کی تصنیف کردہ ہے ۔ اسکی تخلیق انہوں نے 1728 ء میں مغلیہ عہد کے محمد شاہد کے دورِ حکومت میں اور پورنیہ کے فوجدار نواب سیف الدین خاں کے عہد میں کی تھی ، شاعرانہ انداز میں ۔ اسے سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ ضرورت ہے اسے سلیس اردو میں لکھنے کی جو آج تک ممکن نہ ہو سکا جبکہ اس کا ترجمہ بنگلہ میں اسی دور میں " بدیا سندری " کے عنوان سے کیا جا چکا ہے ۔ ڈاکٹر راج کمار سنہا نے اپنے مقالہ ' ہندوستان پر اسلام کے اثرات ' میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے ' بدیا سندری ' سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے ۔ ٹیگور کی نوبل پرائز یافتہ کتاب ' گیتانجلی ' پر بدیا سندری کی گہری چھاپ ہے ۔
ظاہر ہے کہ سیمانچل میں تصنیف وتالیف کا سلسلہ تقریباً تین سو سالوں سے جاری و ساری ہے ۔ مطبوعہ کتابوں میں شاید " کلیاتِ عزیزی " سب سے پہلی کتاب ہے جو 1314 ھ میں چھپی تھی ۔ یہ الحاج منشی فرید بخش کے صاحبزادے عبدالعزیز کی تصانیف کا مجموعہ ہے ۔ پوری کتاب فارسی میں ہے لیکن آخر میں چند اوراق غزلیات اردو پر بھی مشتمل ہیں ۔ 
2
میرے اس مضمون کا مرکز ایسی شخصیات ہیں جن کا بنیادی یا پیدائشی رشتہ سرزمینِ سیمانچل سے نہیں تھا مگر ملازمت ، تجارت یا دیگر ضروریات کے تحت وہ اس خطے میں تشریف لائے ۔ ان میں سے چند نے تو یہیں کی بود و باش اختیار کی اور چند نے آگے کی راہ لی ۔ لیکن اس خطہ میں قیام کے دوران انہوں نے علم و ادب کی بھرپور خدمت انجام دی ۔ یہاں کی ادبی سرگرمیوں میں برسوں نہایت اہم رول ادا کیا ، شعر و ادب کے نئے نئے چراغ روشن کئے اور اپنے ہم عصر ادیبوں کو بھی متاثر کیا اور نئ نسل کی راہنمائی بھی فرمائ ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ایسی شخصیات اور انکے کارناموں سے چشم پوشی ہماری تنگ نظری پر ہی محمول کی جائے گی ۔ مگر ہم سیمانچل والے مہمانوں کا احترام اور انکی پذیرائی میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔ 
لہٰذا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے میں کوشش کرتا ہوں کہ ایسی تمام شخصیات کا مختصر اور جامع تعارف یہاں پیش کروں. بینک میں تیس بتیس سال ملازمت کرنے ، دن رات ڈیبٹ کریڈٹ کرنے، قرض خواہوں کے جھرمٹ میں گھرے رہنے ، قرضداروں کے پیچھے وصولی کی نیت سے بھاگتے رہنے ، کس کی ایس جی ایس وائ لون کے تحت حاصل شدہ بھینس مر گئ اور کس نے قرض میں حاصل ٹیمپو بیچ ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔ ان باتوں کے درمیان ادب کہیں کھو گیا ۔ ادیبوں سے بھی رابطہ منقطع ہو گیا ۔ بہت ساری باتیں جو میری جانکاری میں ہونی چاہیئے تھیں ، نہیں ہیں ۔ اس لئے آپ میں سے جن احباب کے پاس بھی مزید تفصیلی جانکاری ہو براہِ کرم مطلع فرمائیں ۔ چند ادیب / شعرا حضرات جو فی الوقت دوسرے شہروں میں سکونت اختیار کر چکے ہیں ان سے بھی میں نے اس تعارفی سلسلے کے لئے تعاون فرمانے کی اپیل کی ہے ۔ 
1 - خواجہ احمدی خاں راسخ :- دہلی نژاد تھے ۔ آپ 1757 ء سے 1760 ء کے درمیان سید خادم حسین خاں فوجدار پورنیہ کے زمانہ میں مرزا جھببو کی وساطت سے پورنیہ تشریف لائے ۔جلد ہی داعیء اجل کو لبیک کہا اور پیوندِ خاک ہوئے ۔ صنفِ شاعری سے شغل رکھتے تھے ۔ ان کا صرف ایک شعر دستیاب ہے ~
خانہ خراب حلقہ میں اسکے ہوئے ہیں جمع 
ابرو کماں کے ملنے سے تب میں کشیدہ ہوں 
2 - میر مستقیم جرات :- سید زادے تھے ۔ میر حسن اور عشقی دونوں نے اپنے تذکروں میں ان کا ذکر کیا ہے ۔ جرات نے پورنیہ میں فقیرانہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ۔ نمونہء کلام ~
ہر بن مو سے مرے شعلہ نمایاں کر دے 
دل تو جلتا ہے بس اب سرو چراغاں کر دے 
3 - مرزا ندیم ندیم :- انہیں علی قلی خاں کا خطاب حاصل تھا ۔ دہلی کے رہنے والے تھے ۔ پہلے عظیم آباد میں وارد ہوئے ۔ تذکرہ نگار شورش عظیم آبادی سے ان کی ملاقات وہیں ہوئ تھی ۔ شورش کے بیان کے مطابق مرزا ندیم نواب شوکت علی جنگ کے دربار سے منسلک ہو گئے تھے ۔ آپ زیادہ تر فارسی زبان میں مرثیہ کہا کرتے ۔ غزلوں میں تغزل کا رنگ نمایاں تھا ~
گلشن میں جوشِ گل سے قیامت لگی ہے آگ 
بلبل جلیں نہ تیرے پر و بال دیکھنا 
ایک یار نے زروئے نصیحت کہا ندیم 
کب تک تجھے بتوں کا خط و خال دیکھنا 
اک دن رکھا تھا گوشہء دستار پر جو گل 
سایہ سے اس کے یار کا رخسار چھل گیا 
4 - شیخ غلام علی عشرت :- شیخ غلام علی بنگالی کے نام سے بھی شہرت تھی ۔ شیخ لطف اللہ خاں عظیم آبادی کے بیٹے تھے ۔ والد کی وفات کے بعد خادم حسین خاں کے رسالے میں ملازم ہو گئے ۔ پورنیہ میں ان پر جنون طاری ہوگیا اور دشت کی راہ لی ۔ 1785 ء تک باحیات تھے ۔ ان کا ایک شعر تذکرہء شورش میں درج ہے ~
تھا نظر بند تو کرتا تھا کبھی پھر ا دل 
پائے زنجیر ہوا ہائے کہیں دل میرا 
5 - سرمست خان افغان مست :- اصالت خاں ثابت کے بھتیجے یا بھانجے تھے ۔ مشہور تذکرہ نگار عشقی کے شاگرد تھے ۔ قیام زیادہ تر پورنیہ میں رہتا تھا ۔ 1785 ء تک بقیدِ حیات تھے ۔ نمونہء کلام ~
گذرے ہے کل سے یارو ہر لحظہ بے کلی میں 
کیا جانے لے گیا تھا دل ہم کو کس گلی میں 
نہ وہ بانکوں میں گنا جائے نہ ٹیڑھوں میں یہ کیوں 
خانہ جنگی تمہیں رہتی ہے سدا مست کے ساتھ 
(سلسلہ جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویر میں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر :- 1 ۔ سِکلی گڑھ دھرہرا میں واقع راجا ہرنیہ کشیپ سے متعلق ستون کا ٹوٹا ہوا حصہ ۔ 
2 ۔ دھرہرا کا داخل گیٹ 
3 ۔ گور شہر کے کھنڈرات 
نیچے :- 1اور 2 ۔ جلال گڑھ قلعہ ۔
3 ۔ جوگبنی نیپال سرحد پر واقع گیٹ
سلسلہ : سیمانچل ۔۔۔۔ ادب کا گہوارہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیمانچل کی ادبی وراثت میں غیر سیمانچلی شعراء و ادباء کا حصہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری قسط : پورنیہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6 - سالم لکھنوی ثم پورنیوی :- حکیم محمد عسکری نام تھا ۔لکھنئو میں پیدا ہوئے ۔ 1857 ء کے غدر کے ایک یا دو سال بعد عظیم آباد آئے. وہاں سے آرہ چلے گئے ۔ تین چار برسوں تک طبابت کیا پھر پورنیہ چلے آئے ۔ یہیں 1872 ء میں انتقال فرمایا ۔ ناسخ لکھنوی کے شاگرد تھے ۔ مرثیہ گوئی میں ید طولیٰ حاصل تھا ۔ نمونہء کلام ~
خاک میں بھی داغِ فرقت نے حرارت خوب کی 
کاہ آتش دیدہ سے تربت پہ صورت دوب کی 
۔
7 - مولوی غلام محمد لون کامل کاشمیری امرتسری ثم پورنیوی :- ' تحفہء احساں ' کے مرتب رکن الدین دانا نے 1940 ء میں ان کی عمر ساٹھ سال بیان کی ہے ۔ اس لحاظ سے انکی تاریخ پیدائش 1880 ء کے آس پاس متعین ہوتی ہے ۔ان کا خاندان کشمیر سے منتقل ہو کر امرتسر میں آباد ہو گیا تھا ۔ کامل صاحب امرتسر سے ہجرت کر پورنیہ شہر کے محلہ مدھوبنی میں سکونت پذیر ہوئے. وہ کاشمیری شالوں کے تاجر تھے ۔ ہر سال کھگڑا میلہ کشنگنج میں اپنی دکان لگایا کرتے تھے ۔ ہری ہر کشیتر سون پور کا میلہ ایشیا کا سب سے بڑا میلہ مانا جاتا ہے ۔ اس علاقے میں سون پور کے میلے کے بعد کھگڑا دوسرا بڑا میلہ ہوا کرتا تھا ۔ ان دنوں کھگڑا میلہ میں " میلہ مشاعرہ " کی روایت قائم تھی ۔ ان مشاعروں میں ہر سال علاقے کے مشہور و معروف شعراء کرام اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے. کھگڑا میلہ پر انکی ایک غزل ' تحفہء احسان ' میں شامل ہے ۔ اس غزل کے دو اشعار پیشِ خدمت ہیں ~
ہمیشہ اوج پہ ہے آفتاب میلے کا 
کہاں جواب ہے اس لاجواب میلے کا 
یہی پھبن رہے اس کا یہ ہی رہے جوبن 
کبھی نہ اترے الٰہی شباب میلے کا 
۔
8 - مولوی ابو عبدالعزيز عزیز دربھنگوی ثم پورنیوی :- آپ دربھنگہ سے ہجرت کر کے امور علاقہ میں بس گئے ۔ مدرسہ دلال گنج میں مدرس تھے. آپ کا کلام ظریفانہ رنگ میں ڈوبا ہوتا تھا ۔ آپ کی نظم ' مچھر نامہ ' اور منشی محمد طٰہٰ پدر مولوی طاہر علی مرحوم ایم ایل اے کے نام ایک منظوم خط موجود ہے ۔ نمونہء کلام ~
کاتبِ ایں حروف نورنگی 
شیخ ابو عبدالعزيز دربھنگی 
۔
9 - حافظ مظفر حسین مظفر :- آپ کے والد عبد العزیز مرحوم اوگانواں ، بہار شریف کے تھے ۔ نانیہال بھی اوگانواں میں ہی تھی. سنہ پیدائش 1920 ء ہے ۔ 1948 ء میں پورنیہ تشریف لائے ۔ پورنیہ کچہری میں کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان تھی ۔ جیسی مرکزیت آج پٹنہ سبزی باغ میں واقع ' بک امپوریم ' کو حاصل ہے ، ایک زمانے میں پورنیہ میں ایسی ہی مرکزیت حافظ مظفر حسین صاحب کی کتابوں کی اس دکان کو بھی حاصل تھی ۔ اسی چھوٹی سی دکان پر پورنیہ کے صاحبِ علم و دانش مثلاً پروفیسر فضل امام ، صدر شعبہء اردو پورنیہ کالج ، کلام حیدری ، لیکچرر شعبہء اردو پورنیہ کالج ، وفا ملک پوری مدیر صبح نو ، مشہور افسانہ نگار انجم جمالی اور پروفیسر طارق جمیلی ( جناب کلام حیدری صاحب کے بعد ) وغیرہ صاحبان کی بیٹھک ہوا کرتی تھی جسمیں علمی و ادبی بحث مباحثے کا بازار گرم ہوا کرتا تھا ۔ انہیں لوگوں کی صحبت میں حافظ مظفر حسین کا ادبی ذوق بھی پروان چڑھتا گیا اور وہ شعر گوئی کرنے لگے ۔ 1960 ء میں جب پورنیہ اردو سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا تو حافظ مظفر حسین بھی اس کے سرگرم رکن بنے ۔ جون 1972 ء میں رحلت فرمایا اور یہیں مدفون ہوئے ۔ نمونہء کلام ~
تمام زخم فروزاں ہے کہکشاں کی طرح 
زمینِ دل کو سجایا ہے آسماں کی طرح 
اب تیری یاد آتی نہیں پرسش کے لئے 
کس کا ہوتا ہے غمِ ہجر میں پرساں کوئی 
۔
10 ۔ سید عظیم الدین احمد عظیم مونگیری ثم پورنیوی :- آپ کا آبائ وطن مونگیر تھا ۔ 1940 ء میں پورنیہ ضلع اسکول ٹرانسفر ہو کر آئے ۔ اپنی وفات 1962 ء سے قبل تک پورنیہ شہر کی شاعرانہ سرگرمیوں کے روحِ رواں سمجھے جاتے تھے ۔ کلام معیاری ہوا کرتا تھا مگر آتشزدگی کی وجہ سے خاکستر ہو گیا ۔ نمونہء کلام کہیں کہیں دعوت ناموں یا پمفلٹوں میں ملتا ہے ۔ ایک شعر چینی حملے کے خلاف ملاحظہ فرمائیں ~
کہہ دو چاؤ این لائ سے جا کر 
کہ ہم پہ حملے کا حوصلہ نہ کرے ۔
سید عظیم الدین لا ولد تھے ۔ انہوں نے سید شرف الدین کو گود لیا جنکے وہ پھوپھا لگتے تھے ۔ شاعر اور صحافی شاہنواز اختر جو اندنوں News 11 Ranchi میں بحیثیت پالیٹیکل ایڈیٹر کام کر رہے ہیں سید عظیم الدین مرحوم کے پوتے ہیں ۔
۔
11 - وفا ملک پوری :- اصل نام سید عباس علی اور تخلص وفا ، دربھنگہ ضلع کے ایک گاؤں ملک پور کے باشندہ تھے ۔ تاریخ پیدائش ( سرٹیفکیٹ ) اگست 1922 ء ہے ۔ الٰہ آباد ناظمیہ کالج سے مولوی اور عالم کے امتحانات پاس کیا ۔ ان کے بہنوئ لکھنئو یونیورسٹی میں لیکچرر ہوئے تو وفا صاحب لکھنئو چلے گئے اور وہاں سے عالم اور فاضل کے امتحانات پاس کیا ۔ بعد ازیں بنارس مدرسہ جوادیہ میں درسِ نظامی کی پڑھائی کے دوران ہی پورنیہ سٹی مڈل اسکول میں ہیڈ مولوی کی حیثیت سے تقرری ہو گئی ۔ لکھنئو میں دورانِ تعلیم شاعری کا شوق پروان چڑھا ۔ صحافت کا شوق بھی اسکول کے دنوں سے ہی تھا لہٰزا اگست 1952 ء سے پورنیہ سے ماہانہ ادبی رسالہ ' صبح نو ' کی اشاعت شروع کی ۔ 1957 ء کے اواخر میں اسکی اشاعت کا سلسلہ پٹنہ سے شروع ہوا ۔ 1952 ء سے 1974 ء تک ان کی صحافتی زندگی کا بیش قیمت زمانہ تھا ۔ صبح نو کو کافی شہرت حاصل ہوئ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ اسکی اشاعت کے سلسلے میں انہیں اپنی بیوی کے زیور تک گروی رکھنے پڑے ۔ 
آخر میں تھک ہار کر وفا صاحب پورنیہ لوٹ آئے ۔ بقول وفا " آخری حد تک میں نے صبح نو کو چلایا ۔ جتنا ایثار کر سکتا تھا کیا. اگر کچھ دن اور میں وہاں رہ جاتا تو میرے متعلقین میرے لئے بد دعائیں شروع کر دیتے ۔ "
وفا صاحب کے دو شعری مجموعے منظرِ عام پر آئے ۔ غزلوں کا مجموعہ " حرفِ وفا " 1988 ء میں شائع ہوا ۔ دوسرا مجموعہ عزائ نظموں پر مشتمل " شاہراہِ وفا " ہے جو پہلے شائع ہوا تھا ۔
وفا صاحب اعلیٰ درجہ کے شاعر تھے ، نہایت خوش لحن ۔ اپنا ایک مخصوص لہجہ و آہنگ رکھتے تھے ۔ اکثر آل انڈیا مشاعروں میں شرکت ہوا کرتی تھی ۔ بقول انکے علیگڑھ ، حیدر آباد اور کشمیر چھوڑ کر ہندوستان کی کوئ ایسی قابلِ ذکر جگہ نہیں جہاں کے مشاعروں میں ان کی شرکت نہ ہوئ ہو ۔ تاریخِ وفات 31 مئ 2003 ء ہے ۔ نمونہء کلام ~
یہ سچ ہے وفا نام ہمارا ہے دوستو 
یہ سچ ہے کہ تقصیرِ وفا ہم سے ہوئ ہے 
۔
وفا کی داد کا احساں کسی سے ہم نہیں لیتے جو خود دریا لٹاتے آئے ہیں شبنم نہیں لیتے 
۔
دن کو دن لکھا تو شب کو شب وفا ہر دور میں 
جو کیا محسوس ہم نے برملا لکھتے رہے 
۔
12 - کلام حیدری :- مشہور و معروف ادیب اور صحافی کلام حیدری صاحب مرحوم نے بطور لیکچرر شعبہء اُردو ستمبر 1952 ء میں پورنیہ کالج پورنیہ جوائن کیا ۔ اردو زبان و ادب کے تئیں وہ ہمیشہ بہت سنجیدہ رہے ۔ ان کی تاریخِ پیدائش 03 اپریل 1930 ء ہے ۔ 
پورنیہ کالج میں انکی شخصیت اور اردو سے محبت نے انکے شاگردوں کو کافی متاثر کیا ۔ شمس جمال ایڈووکیٹ مرحوم ارریہ ان کے عزیز شاگردوں میں سے ایک تھے ۔ ان کا پہلا افسانہ ' کشش ' ماہنامہ بیسویں صدی دہلی میں 1953 ء میں شائع ہوا تھا ، اس وقت وہ کلام حیدری صاحب کے ہی شاگرد تھے ۔ 
کلام حیدری صاحب جب تک پورنیہ میں رہے ، وفا ملک پوری صاحب کے معاون کی حیثیت سے ' صبح نو ' کی آبیاری کرتے رہے ۔ اسی درمیان وہ ایک بڑی جائداد کے مالک بنے جس میں سیمینٹ فیکٹری وغیرہ بھی شامل تھی ۔ لہٰزا ملازمت کو خیر باد کہہ کر 1959 ء میں گیا کی راہ لی ۔ 
گیا پہنچ کر بھی اردو ادب سے ان کا رشتہ ٹوٹا نہیں ۔ گیا سے انہوں نے ہفتہ وار ' مورچہ ' جاری کیا ۔ ادبی ماہانہ رسالہ ' آہنگ ' ان کا بڑا کارنامہ ہے جس کے ذریعہ انہوں نے بہار میں ادیبوں کی ایک نئ کھیپ کی آبیاری کی ۔
ان کے افسانوی مجموعہ ' الف میم لام ' نے کافی شہرت حاصل کی ۔ ادبی تبصروں پر مبنی انکی کتاب ' برملا ' کو بھی بیحد پذیرائی ملی ۔ 3 - 2 فروری کی درمیانی شب 1994 ء کو مالکِ حقیقی کی پکار پر لبیک کہا ۔
۔
13 - پروفیسر فضل امام :- پورنیہ کالج پورنیہ کے سینیئر موسٹ اساتذہ میں سے ایک تھے ۔ شعبۂ اردو کے صدر ، نہایت معتبر اور محترم ولی صفت ہستی. آبائ وطن کاکو تھا ۔ میری خوش بختی کہ ایک دو برس انکی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ غالباً 1974 ء میں ملازمت سے سبکدوشی حاصل ہوئ ۔ ہمیں وہ بالِ جبریل پڑھایا کرتے تھے ۔ کبھی کبھار شاعری بھی کر لیا کرتے تھے ۔ دراصل عملیات کی جانب ان کا رجحان بہت زیادہ تھا ۔ ان کے متعلق بہت سارے قصے مشہور تھے عبادت و ریاضت کے ، کرامات کے ۔۔ سنا کہ ان کے قبضے میں کئ جنات تھے ۔ نئے نئے طرح طرح کے مرد اور عورتیں ان سے ملنے آیا کرتے تھے ۔ ان کی ساری تنخواہ یہیں ضرورتمندوں وغیرہ پر خرچ ہوجایا کرتی تھی ۔ پتہ نہیں گھر کچھ بھیج بھی پاتے تھے یا نہیں ۔ 
میں آنکھوں دیکھا ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں ۔ پروفیسر بی پی رائے جو انگریزی کے بہت مشہور ، قابل اور بارعب شخصیت کے حامل پروفیسر تھے ان کے ہونٹوں میں ہر وقت سگار دبا رہتا تھا ۔ ایک دن ٹیچرس روم میں کرسی پر نہایت اطمینان سے بیٹھے وہ سگار سے شوق فرما رہے تھے ۔ یکایک کرسی سے اٹھے اور کمرے کی دیوار سے پشت لگا کر کھڑے ہو گئے ۔ میں تعجب سے دیکھنے لگا کہ اچانک انہیں ہوا کیا ؟ وہ اپنا ہاتھ پیٹھ کے پیچھے لے جا کر سگار کے سلگتے ہوئے سرے کو دیوار سے رگڑ کر بجھانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ پھر میری نظر سامنے داخلی دروازے پر پڑی تو دیکھا کہ جناب فضل امام صاحب اندر داخل ہو رہے ہیں ۔ سبحان الله ! کیا عزت اور توقیر بخشی تھی اللہ رب العزت نے استادِ محترم کو کہ ہم اسٹوڈینٹس کیا ان کے ساتھ کام کرنے والے پروفیسرز تک ان کی ایسی عزت اور احترام کیا کرتے تھے ۔
بھائ مشتاق احمد نوری ( سکریٹری بہار اردو اکادمی )اپنے زمانہء طالبعلمی میں ان سے بیحد قریب رہے ۔ جناب فضل امام صاحب ان کے استادِ روحانی بھی رہے اور نوری صاحب نے ان سے بہت کچھ حاصل بھی کیا ، ایسا وہ خود بھی بیان کرتے ہیں ۔ 
پروفیسر فضل امام صاحب اکثر ہمیں اپنی ایک غزل سنایا کرتے تھے جس کا مطلع کچھ یوں تھا ~
بتانِ سیم تن بانکے نرالے خوش ادا ہو کر 
رہے ہیں اک زمانے تک مرے دل میں خدا ہو کر 
۔
14 - الیاس احمد صدیقی الیاس :- آپ ضلع اسکول پورنیہ میں میرے استاد رہے ۔ آپ کا آبائ وطن سلیم پور ، نور پور تھانہ - تیگھڑیا ، ضلع : بیگو سرائے ہے ۔ 1911 ء میں وہیں پیدا ہوئے ۔ آپ ایوب گرلس ہائ اسکول کے فاؤنڈر ٹیچر تھے ۔ پہلے آرہ گئے پھر وہاں سے تبادلہ کے بعد 1939 ء میں بطور اردو معلم پورنیہ آئے ۔ دسمبر 1971 ء میں یہیں سے سبکدوش ہوئے ۔ انہوں نے ہمدرد دواؤں کی ایجنسی بھی لے رکھی تھی ۔ خزانچی ہاٹ محلہ میں ایجنسی سے متصل ذاتی مکان تھا ۔ یہ تمام چیزیں آج بھی قائم ہیں ۔ غزل کے شاعر تھے. شاعری کو اصلاحِ قوم کا ذریعہ مانتے تھے ۔ سنہ وفات 1980 ء ہے ۔ نمونہء کلام ~
ہے زندگی اور موت میں بس فرق اس قدر 
اک مستیء حیات چڑھی اور اتر گئ ۔
۔
ہے شاعری کو اٹھانا رخِ حیات کا پردہ 
سبق یہ چھوڑ جا الیاس ہم عصر کے لئے 
۔
15 - حکیم بشیر احمد بشیر :- والد حکیم تصدق حسین رمضان پور ضلع : نالندہ کے باشندہ تھے ۔ سنہ پیدائش 1909 ء ہے ۔ تکمیلہ طب کالج لکھنئو سے 1934 ء میں تکمیلِ طب کی سند حاصل کی ۔ 1942 ء سے خزانچی ہاٹ محلہ میں عین ماسٹر الیاس صدیقی صاحب کے بغل میں مطب اور ہمدرد دواخانہ کی شروعات کی جو اب تک قائم ہے ۔ نظمیں اور غزلیں کہتے تھے ۔ 1987 ء میں رحلت فرمایا ۔ نمونہء کلام ~
بشیر ہندی ہے ، یہ ہندوستاں پر ناز کرتا ہے 
جہاں میں سب سے بہتر ہے یہی انداز کرتا ہے ۔
۔
مولوی الیاس صاحب اور حکیم بشیر صاحب کا ہمدرد دواخانہ ان دنوں شام کے وقت کافی پر رونق ہوجایا کرتا تھا ۔ دراصل وہاں ہم عصر ادیبوں اور شاعروں اور ادب نوازوں کی محفل خوب خوب جمتی تھی جس میں ان دونوں حضرات کے علاوہ پورنیہ گورنمنٹ گرلس ہائ اسکول کے وائس پرنسپل مولوی اسمٰعیل ندیم صاحب ، پورنیہ ضلع اسکول کے پرنسپل سید ابو ظفر صاحب ، مولوی یونس سحر صاحب وغیرہ کی شرکت تقریباً بلا ناغہ روز طے تھی ۔ والد صاحب بھی وقتاً فوقتاً حاضرِ محفل ہوا کرتے تھے. وہاں علم و ادب ، شعر و سخن ، حالاتِ حاضرہ ، ملکی و عالمی سیاست ، سقوطِ ڈھاکہ ، بی بی سی ۔۔۔۔۔ غرضکہ ہر موضوع پر بات چلتی تھی اور ساتھ ہی تبصروں کا دور بھی چلتا رہتا تھا ۔ اسی درمیان پورنیہ اردو سوسائٹی کے ماہانہ طرحی مشاعرے میں شرکت کے لئے قافیوں کی تلاش اور غزلوں کی نوک پلک درست کرنے کا کام بھی جاری رہتا ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں گئے وہ دن ، کہاں گئے وہ لوگ ؟؟
.
16 - ابوالمحاسن انصاری محاسن :- 
والد کا نام نبی بخش انصاری اور آبائ وطن جنگی پور ضلع : غازی پور ( اتر پردیش ) تھا ۔ تاریخ پیدائش 08 نومبر 1931 ء ہے ۔ پیدائش غازی پور میں ہوئ ۔ خزانچی ہاٹ جامع مسجد کے قریب ان کے خسر کی کچھ زمین تھی جو بعد میں انہیں ملی ۔ کوشی پراجیکٹ میں ڈرافٹس مین کے عہدہ پر فائز تھے ۔ 1991 ء ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور 07 ستمبر 2001 ء کو رحلت فرمایا ۔ پورنیہ اردو سوسائٹی کے ماہانہ نشستوں میں غزلیں سنایا کرتے تھے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( سلسلہ جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویر میں بائیں سے 
اوپر :- وفا ملک پوری ۔ کلام حیدری 
نیچے :- مولوی الیاس صدیقی الیاس ۔ حکیم بشیر احمد بشیر ۔ ابوالمحاسن انصاری محاسن ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلسلہ : سیمانچل ۔۔۔۔ ادب کا گہوارہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیمانچل کی ادبی وراثت میں غیر سیمانچلی ادباء و شعراء کا حصہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری قسط : پورنیہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
17 - پروفیسر طارق جمیلی :- 1959 ء میں جناب کلام حیدری صاحب کے مستعفی ہونے کے بعد پروفیسر ابو اجمل محمد طارق جمیلی نے پورنیہ کالج ، پورنیہ میں بطور لیکچرر اردو زبان و ادب جوائن کیا ۔ ان کا آبائ وطن مہرتھا 
تھانہ : کانٹی ضلع : مظفر پور ہے ۔ ان کے والد محمد جمیل مرحوم ایڈووکیٹ تھے اور حاجی پور میں وکالت کیا کرتے تھے ۔ طارق صاحب کی پیدائش اکتوبر 1933 ء میں ہوئ ۔ 
طارق صاحب نے 1960 ء میں پورنیہ اردو سوسائٹی ، پورنیہ کی داغ بیل ڈالی ۔ اس کے زیر اہتمام ماہانہ طرحی اور غیر طرحی شعری نشستوں کا انعقاد کیا جانے لگا ۔ گاہے بگاہے افسانوں کی محفلیں بھی سجتی رہیں ۔ پورنیہ شہر کے علاوہ دیگر قریبی شہروں سے بھی اکثر شعراء و ادباء کی شرکت ان نشستوں میں ہوتی رہی ہے ۔ پورنیہ کالج میں بزمِ ادب کی تشکیل کی گئ ۔ بزم کے زیر اہتمام مشاعروں ، محفل ِ افسانہ اور ڈراموں وغیرہ کا انعقاد کیا جانے لگا ۔ گویا کہ پورنیہ میں ایک خوشگوار ادبی ماحول کی داغ بیل پڑگئ ۔ بطور استاد بھی انہوں نے کئ نسلوں کی آبیاری کی ۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں مثلاً شاعر ، افسانہ نگار ، انشائیہ نگار ، محقق ، ڈرامہ نگار ، ناول نگار وغیرہ ۔ ان کی تصنیفات میں ' پورنیہ ' طویل نظم 1985 ء ، جذبِ دروں : شعری مجموعہ 2009 ء ، سورہء یٰسین : منظوم ترجمہ 2007 ء ، شکست کی آواز : ڈرامہ 1980 ء ، آگ اور پانی : تمثیلی ڈرامہ 1980 ء ، آزاد شرارے : انشائیوں کا مجموعہ 1987 ء ، عرش گیاوی : حیات و خدمات 2009 ء ، قلم جاگ رہا ہے : افسانوی مجموعہ 2007 ء ، نقشِ جمیل : مرتبہ2013 ء ، وادی کی واپسی : ناولٹ ہیں ۔ اس کے علاوہ فی الحال مختلف مضامین پر مشتمل ایک کتاب طباعت کے مراحل میں بھی ہے ۔ 1993 ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد پورنیہ میں ہی مستقل سکونت اختیار کر لی ۔ نمونہء کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔
اک چہرہ ہوں میں بھی مجھے اس کی نہ خبر تھی 
آئینہ دیا جس نے مرے ہاتھ وہ تم ہو 
چھن جائے جو یادوں کا خزانہ تو کرم ہو 
لیکن نہیں بھولونگا جو اک بات وہ تم ہو 
۔
18 - نزہت طارق ظہیری :- پروفیسر طارق جمیلی صاحب کی شریکِ حیات اور سیمانچل میں نسائ ادب کی پایونیر ( Pioneer ) ۔ والد ظفر الدین مرحوم ساکن کنکڑ باغ ، پٹنہ ۔ 
بچپن سے گھر میں ادبی ماحول رہا ۔ چچا آفتاب ظہیری دربھنگہ سے شائع ہونے والے ادبی رسالہ ' افق ' کے مدیر تھے ۔ اردو کے علاوہ ہندی کتھا سنکلن ' رینو ماٹی کے کتھاکار ' اور ' کتھا کوشی ' میں افسانوں کا انتخاب ۔ آل انڈیا ریڈیو ، پورنیہ سے افسانے نشر ہوتے رہے ہیں ۔ 
تصنیفات :-
1 - ایک روٹی سات پہاڑ : افسانوی مجموعہ 2007 ء 
2 - طارق جمیلی دیدہء جوہر شناس میں : مرتبہ 2013 ء 
۔
19 - صبا اکرام :- 1960 ء میں جب پورنیہ اردو سوسائٹی ، پورنیہ کی تشکیل ہوئ تو سوسائٹی کے پہلے صدر پروفیسر طارق جمیلی اور پہلے سکریٹری جناب صبا اکرام منتخب ہوئے ۔ صبا اکرام صاحب کا آبائ وطن ہزاری باغ ہے ۔ ان کے چچا جناب اکرام الحق صاحب ان دنوں پورنیہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ پر فائز تھے ۔ صبا اکرام پہلے اپنا نام صبا ہزاری باغوی لکھا کرتے تھے ۔ انہوں نے گریجویشن سینٹ کولمبس کالج ، ہزاریباغ سے کیا ۔ اس کے بعد وہ کئ برسوں تک پورنیہ میں رہے ۔ اس عرصہ میں انہوں نے انگریزی زبان کی کئ مشہور نظموں کا اردو میں ترجمہ کیا جو شاعر ، موج ، صبح نو ،شاخسار وغیرہ میں تواتر سے شائع ہوئے ۔ پھر انہوں نے خود بھی نظم نگاری کی شروعات کی اور کئ کامیاب غیر پاپند نظمیں کہیں ۔ شمس الرحمٰن فاروقی سے قربت نے ان کے فن کو مزید جلا بخشی ۔ ان کی بہت ساری نظمیں رسالہ ' شبِ خون ' الٰہ آباد کی زینت بنیں ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا کے رسالہ ' اوراق ' کے لئے انہوں نے جدید افسانہ نگاری پر بھی مضامین قلمبند کئے ۔
اسی زمانے میں باراعیدگاہ سے جناب اسمٰعیل رموزی مرحوم ماہانہ رسالہ ' قافلہ ' نکال رہے تھے ۔ قافلہ کا بہت سارا کام طارق جمیلی صاحب اور صبا اکرام صاحب کے ذمہ بھی تھا ۔
پورنیہ میں کئ برس قیام کے بعد صبا اکرام صاحب مشرقی پاکستان ہجرت کر گئے مگر جلد ہی وہاں جنگ کا آغاز ہو گیا اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش کے نام سے عالمِ وجود میں آیا ۔ صبا صاحب کی جان کسی طرح بچ گئ ۔ پھر وہ خود اور ان کے کئ ساتھی جنگی قیدیوں ( P O W ) کی حیثیت سے پاکستان پہنچے اور کراچی میں سکونت پذیر ہوئے ۔ بطور شاعر ، نقاد اور کالم نگار انہوں نے اردو دنیا میں کافی شہرت حاصل کی ہے ۔ ان کا شعری مجموعہ ' سورج کی صلیب ' 1981 ء میں منظرِ عام پر آیا ۔ دوسرا شعری مجموعہ ' آئینے کا آدمی ' 2006 ء میں شائع ہو چکا ہے ۔ تنقیدی کتاب ' جدید افسانہ چند صورتیں ' 2001 ء نے بھی کافی پذیرائی حاصل کی ہے.
نمونہء کلام ۔۔۔۔۔۔۔
صدیوں سے سہہ رہا ہوں صبا بے گھری کا غم 
نکلا تھا ایک بار میں اپنے مکان سے 
۔
خزاں نصیب گلوں کی فسردگی پہ نہ جا 
چھڑے گا رزمِ بہاراں یہاں کبھی نہ کبھی 
۔
20 - شاہ اکرام الحق اکرم :- آبائ وطن بیلن بازار ، مونگیر ہے ۔ والد شاہ نصیرالحق پولیس انسپکٹر تھے ۔ سنہ پیدائش 1935 ء ہے ۔ 1959 ء سے پورنیہ میں وکالت شروع کی ۔ ان کے دادا شاہ ریاض بھی اچھے شاعر تھے ۔ ان کے زیر سایہ اکرام صاحب کے اندر شاعری کی تخم ریزی ہوئ ۔ شاہ اکرام الحق کی خواہش پروفیسر بننے کی تھی مگر وکالت کے پیشے سے منسلک ہونا پڑا ۔ اردو شعر و ادب سے والہانہ لگاؤ تھا اور بہترین صلاحیت کے مالک تھے ۔ پورنیہ عدالت میں جب جناب عنایت الرحمٰن صاحب بطور جج تشریف لائے جو خود بھی اچھے شاعر تھے اور مشاعروں کے بڑے شوقین تھے تو ان کی صحبت نے جناب اکرام صاحب کو بھی شعر گوئی پر مجبور کر دیا ۔ رفتہ رفتہ ان کی دلچسپی اس حد تک بڑھی کہ اردو سوسائٹی ، پورنیہ کے بینر تلے ہر ماہ شعری نشستوں کا انعقاد اپنے دولت خانے پر کروانے لگے ۔ پورنیہ میں محفلِ شعر و سخن کا تذکرہ شاہ اکرام الحق اکرم کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جا سکتا ۔ 29 اپریل 2005 ء کو مالکِ حقیقی سے جا ملے ۔ 
نمونہء کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو بس فیضِ عنایت ہے کہ کہہ لیتے ہیں 
ورنہ ممکن نہ تھا اکرم کا غزل خواں ہو نا 
۔
میرے اس ذہنِ پریشاں میں آوارہ خیال بھاگتے پھرتے ہیں ہر سمت غزالوں کی طرح 
۔
21 - پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانش :- تاریخِ پیدائش 13 ستمبر 1945 ء ۔ والد مولوی طیب علی مرحوم ۔ آبائ گاؤں مکھا تکیہ ، نوگچھیا ( ضلع : بھاگلپور ) ہے ۔ 1975 ء سے پورنیہ کالج ، پورنیہ میں شعبہء اردو و فارسی کے صدر رہے ۔2001 ء سے بی این منڈل یونیورسٹی ، مدھے پورہ میں صدر شعبہ ء اردو رہے ۔ ستمبر 2011 ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ مستقل سکونت پورنیہ شہر میں اختیار کی ۔ 
استادِ محترم کا ہم سیمانچل واسیوں پر یہ بڑا کرم اور احسان ہے کہ انہوں نے سیمانچل کی اہم شخصیات پر نہایت جانفشانی سے تحقیق کا کام کیا اور وہ قابلِ قدر ہستیاں جو قصہء پارینہ بنتی جا رہی تھیں انہیں زندہ جاوید بنا دیا ۔ ان کی زیر نگرانی تیرہ ریسرچ اسکالرز نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی. یہاں ان کے چند قابلِ ستائش کارناموں کا ذکر ناگزیر ہے ۔ مولانا عیسیٰ فرتاپ : حیات اور شاعری ، ڈاکٹر فرحت آرا ۔ حکیم رکن الدین دانا کی ادبی خدمات ، ڈاکٹر غلام یزدانی ۔ مولوی محمد سلیمان سلیماں : حیات و خدمات ، ڈاکٹر محمد کلیم اللہ ۔ اردو شاعری میں قدیم پورنیہ کی خدمات ، ڈاکٹر عنصری بدر ۔ پروفیسر طارق جمیلی کی ادبی خدمات ، ڈاکٹر سجاد اختر ۔ پورنیہ کے فارسی شعراء و ادباء ، نسیم اختر ۔ تہذیب احمد غافل کی ادبی خدمات ، عبدالمنان ۔ اکمل یزدانی کی ادبی خدمات ، شاہنواز بابل ۔ سیمانچل میں اردو فکشن نگاری ، شازیہ نسرین ۔
تصنیفات :- بہار میں اردو مثنوی کا ارتقا 1989 ء ۔ مثنوی کا فن اور بہار کی معروف مثنویاں 2010 ء ، پیکرِ سخن : شعری مجموعہ 2011 ء ، شمع پگھلتی رہی : افسانوی مجموعہ 2010 ء ، جانچ پرکھ : تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ 2015 ء ۔
ڈاکٹر دانش صاحب آج بھی اتنے ہی فعال ہیں اور اب بھی کئ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں ۔ مثنوی پر ہی ان کی نئ اور ضخیم کتاب چھپ چکی ہے اور آپ کے روبرو آیا ہی چاہتی ہے.
نمونہء کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لطفِ حسنِ بہار لیتے ہیں 
وہ جو کانٹوں کا پیار لیتے ہیں 
آئینہ کیا ہے ، آئینے ان سے 
حسن ِ پیکر ادھار لیتے ہیں 
۔
22 - رمن پرشاد سنہا رمن :- آبائ وطن برنداون ضلع : گوپال گنج ہے ۔ پورنیہ ضلع اسکول میں انگریزی زبان کے استاد کی حیثیت سے ٹرانسفر ہو کر آئے ۔ ابتدائی تعلیم چونکہ اردو میڈیم سے حاصل کی تھی لہٰزا اردو زبان و ادب سے اچھی شناسائی اور شعر و سخن سے گہری وابستگی تھی ۔ آواز نہایت مترنم تھی ۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں سماں باندھ دیا کرتے تھے ۔ یہاں سے تبادلہ پاکر موتیہاری ضلع اسکول کے پرنسپل بنے ۔ پھر پٹنہ چلے گئے ۔ یکم مارچ 2014 ء کو دار فانی سے کوچ کیا ۔ آپ کا ایک شعری مجموعہ ' غزلوں کا گلدستہ ' ہندی رسم الخط میں شائع ہوا تھا ۔ نمونہء کلام ۔۔۔۔۔۔
الٹی ہی خیالوں کی تصویر نکلتی ہے 
جس زلف کو چھوتا ہوں زنجیر نکلتی ہے 
اے چرخ تجھے کیوں کر مجھ سے ہی عداوت ہے 
خوابوں سے جدا اکثر تعبیر نکلتی ہے 
۔
23 - پروفیسر اصغر راز فاطمی :- تاریخِ پیدائش 09 فروری 1951 ء ہے. والد مولوی محمد عباس مرحوم بسلسلہ تجارت آبائ گاؤں صاحب گنج کیسریا ضلع : مظفر پور کو خیرباد کہہ کر پورنیہ تشریف لائے اور یہیں بود و باش اختیار کی ۔ اصغر صاحب اس وقت کافی کم عمر تھے ۔ والد صاحب کے رحلت فرمانے کے بعد انہوں نے کافی مشکلات کا سامنا کیا ۔ مگر اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ 1976 ء میں ویمینس کالج ، پورنیہ میں اردو کے لیکچرر بحال ہوئے ۔ 2016 ء میں شعبہء اردو کے صدر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔ صنفِ شاعری اور افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ شعری مجموعہ ' وا نہیں ہے کوئ در ' اشاعت کے مراحل میں ہے ۔ نمونہء کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثواب کتنا ، عذاب کتنا 
رکھے گا کوئ حساب کتنا 
۔
جھوٹ ہے جو کچھ کہا ، جھوٹ ہے جو کچھ سنا 
ایک بس سچی کتھا ، تیری کتھا میری کتھا 
۔
24 - سید اظہار عالم :- تاریخ پیدائش 02 جولائ 1945 ء ۔ والد سید قمر العالم مرحوم ، آبائ وطن و جائے پیدائش موتیہاری ۔ دسمبر 1979 ء سے 31 جولائی 2005 ء تک کوشی کشیتریہ گرامین بینک ( حالیہ اتر بہار گرامین بینک ) میں بطور سینیئر مینیجر ہیڈ آفس پورنیہ اور پھر بطور ایریا مینیجر کشن گنج تعینات رہے ۔ پورنیہ میں ذاتی مکان بھی تعمیر کر لیا تھا مگر ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دلی شفٹ کر گئے ۔ ایک دو برس جامعہ کو آپریٹیو بینک میں بطور اسسٹنٹ جنرل مینیجر کام کیا پھر مستعفی ہو گئے ۔ فی الحال دلی میں سکونت اختیار کر چکے ہیں ۔ 
افسانے اور مضامین شاعر ، پرواز ادب ، واقعات وغیرہ رسائل میں شائع ہوئے ۔ سبکدوشی کے بعد ایک ناولٹ ' ستاروں سے آگے ' کی اشاعت ہو چکی ہے ۔ ناولٹ کا مرکزی خیال دیہی ترقی پر مبنی ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے والد صاحب مرحوم کی ہزلوں پر مشتمل ایک 
مجموعہ ' قہقہے ' کے عنوان سے ترتیب دے کر شائع کر چکے ہیں ۔
کریڈٹ: محمد احسان الاسلام 

Comments

Popular posts from this blog

Principal reasons of failure in life

اسلامی دنیا میں نمودار ہونے والے بیسویں صدی کے اھم واقعات

ہندوستان کے مشہور مدارس اور مختصر تاریخ