سیمانچل کی ترقی نوجوانوں کے ذہنی ارتقاء پرمنحصر
عام
طور سے بہار کے چارضلعوں
ارریا ، پورنیہ ، کٹیہار اور کشنگج پر مشتمل خطہ کو سیمانچل کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ بہار کا یہ خطہ بھی متھلانچل کی سنہری
تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ ایسے تو ہمارے ہندوستان
جیسے عظیم ملک میں آئے دن کوئی نا کوئی انتخاب ہوتاہی رہتا ہے اور ہم اس کے اس
قدرعادی ہو چکے ہیں کہ نہ تو ہمیں اس میں
کوئی کمی نظر آتی ہے اور نہ ہی اس میں آنے والےبے پناہ مصارف کا اندازہ ہی لگا
پاتے ہیں۔ انہیں انتخابات میں سے ابھی
ماضی قریب میں سیمانچل کے ضلع ارریا میں سابق ایم پی جناب تسلیم الدین مرحوم کے
انتقال پر ضمنی انتخابات ہوئے اور بھگوا ئیوں کے بالمقابل ایک سیکیولر پارٹی کو
جیت ملی ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے اور ہم
اس کے لئے سیکیولر پارٹیوں کو تہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔اس ضمنی انتخاب کے سماج پرمرتب ہونے والے مثبت ومنفی اثرات کا بنظر غائرمطالعہ کیاجائےتو
کچھ ایسی باتیں ابھرکر سامنے آتی ہیں جو بہت خطرنا ک ہیں اور ان لوگوں کے لئے
کافی پریشان کن ہیں جو سیمانچل اور خاص کر ارریا ضلع کو ہندوستان کے سب سے پس
ماندہ ضلعوں کی فہرست سے جلد نکال باہر کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک کی کنجائش نہیں ہے کہ ارریا ضلع
ملک کا سب سے پسماندہ ضلع ہے اور درجنوں سرکاری اور غیر سرکاری اسکیمیں اور ادارے ضلع کو قومی سطح پر لانے کی
کوشس کر رہی ہیں تاہم وہاں کی نوجوان نسل جو کہ ہر قوم کا سرمایہ ہوا کرتی ہیں
ابھی تک خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ آ ج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی سیمانچل کے نوجوانوں کی
سوچ اپنے گزرے ہوئے آباء و اجداد سے پوری طرح سے ہم آہنگ ہیں ۔ زیادہ افسوس تب ہوتا ہے جب یہ نوجوان سالوں سال ملک کے مختلف مشہو ر اداروں اور بہترین یونیورسیٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے اپنے علاقہ میں واپس جاتے ہیں تووہ بھی سماج
کو اپنے رنگ میں رنگنے کے بجائے خود کو سماج کے رنگ میں رنگ لیتے ہیں ۔ آزادی کے سترسالوں کے بعدبھی سیمانچل کا پچھڑا ہونا بڑا ہی افسوسناک ہے لیکن اس سے بھی بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ
سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی چوطرفہ کوششوں کے باوجودیہاں کے حالات آ ج بھی ویسے
ہی ہیں جیسے کہ پچاس سال پہلے ہوا کرتے تھے۔ پچھلے دنوں سیمانچل کے کچھ تعلیم
یافتہ ، مہذب اور فکرمندلوگوں نے دہلی میں
ایک کانفرنس کرکے سیمانچل کے حالات کا جائزہ لیا اور یہ پایا کہ سیمانچل کے پچھڑے پن کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی گراوٹ اور سیاسی
بیداری کا فقدان ہے۔
یہ اب حقیقت ہے کہ سیمانچل کے لوگ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف
نہیں بلکہ یہاں بھی اب خوب تعلیمی بیداری
ہے اور جگہ جگہ اسکول، کالج اور مدرسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اچھے پڑھے لکھے اور سیاسی سوجھ بوجھ والے لوگوں
کی بھی اب کمی نہیں رہی، تاہم ایسے لوگ نہ تو اپنے علاقہ میں رہنا پسندکرتے ہیں
اور نہ ہی اپنی سماجی ذمہ داریوں کوپور ا کر رہے ہیں بلکہ وہ اپنے ہی گھر تک محدود
رہ کر ایک خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
آئے دن ہونے والے انتخابات نے ان نوجوانوں کو بھی سیاسی لیڈر بنا دیا ہے جن
کو ابھی تک ووٹنگ کا بھی حق نہیں ملا ہے۔ آئے
دن ہونے والے انتخابات نے ہر آدمی کے ذہن میں یہ ثبت کردیا ہے کہ ان کی کامیابی کا رازصرف اور صرف اوچھی سیاست میں چھپا ہو اہے ۔ ان کو یہ لگنے
لگا ہے کہ ان کی ہر پریشانی اور مصیبت کا
حل کسی چھوٹے موٹے تعلیم اور ضروری مہارت سے نا بلد کسی سیاسی لیڈر
کی حمایت میں پنہاں ہے ۔ ان کی حمایت میں یہ نوجوان اس قدر مجنون ہوجاتے
ہیں کہ اگر کوئی اس کے لیڈر یا نیتا کے
خلاف ایک لفظ اپنی زبان سے نکال دے توہ لڑنے مرنے پر آجاتے ہیں حتی کہ وہ اس کو
اپنی ذاتی دشمن سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سیمانچل میں ایک آدھ ہی سیاست داں
ایسے ہوں گے جو باضابطہ سیاست کی تعلیم اورضروری ٹریننگ لیکر سیاست کررہے ہوں۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ تعلیم انسان کو ظلمت وحشت
سے نکالتی ہے ، جب ایسے لوگ سیاست میں آتے ہیں تو ان کے پاس اخلاق و کردار کا
فقدان ہوتا ہے اور نہ ہی ان کوقانونی اختیارات کی واقفیت ہوتی ہے اور نہ ہی
ان کو سماجی ، مذہبی اور ملکی ذمہ داری کا
احساس ۔ جب انسان بنیادی ذمہ داری کے
احساس سے آزاد ہوتا ہے تب ان کے لئے اپنے مقصد کے حصول میں ہر ظلم و زیادتی روا لگتی ہے۔ آج کے کے مادیت پرست دور
میں ایک جاہل گوار آدمی کے پیچھے سیکڑوں پڑھے لکھے لوگ لگے ہوتے ہیں ، کچھ مجبوری
سے اور کچھ اپنی خداری کو بیچ کر۔ آج کی
نئی نسل کو محنت سے بڑی دشمنی ہے اور وہ ترقی کا شارٹ کٹ تلاش کرتی رہتی ہے اور
جب ان کو اس طرح کےلوگ مل جاتے ہیں تو وہ ان کو اپنا رول ماڈل بنالیتے ہیں اور تعلیم
کا سلسلہ منقطع کرکے ان میں سے کسی ایک کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب اس طرح کے نوجوانوں سے
بات کیجئے تو ایسی لمبی لمبی باتیں کریں گے جیسے کہ وہ علاقہ کی ہر مشکل اور
پریشانی سے واقف ہیں اور سالوں سال سے چلی
آرہی پریشانی کو ان کا نیتا چٹکیوں میں حل کرسکتا ہے جبکہ ان کو یہ بھی علم نہیں
ہوتا کہ ایم ایل اے یا ایم پی کے اختیارات کیا ہیں ۔
جب ملک کے آئین نے 18 سال سے کم عمر لوگوں کو ووٹنگ کے اختیارات
نہیں دئے تو ان کو کس بناء پر انتخابی
سرگرمیوں میں جھونک دیا جاتا ہے اور ان کے
اندر ایک ایسی نفرت اور جہالت کا شعلہ بھڑکا یا جاتا ہے کہ وہ اپنی ساری اخلاقی
ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں اور سالوں سال ایک دوسرے کے دشمن بنے رہتے ہیں ۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بچوں کے ماں باپ
بھی اپنے بچوں کے مستقبل سنوارنے کے بجائے چند پیسوں کی لالچ میں تعلیم
روک کر اپنے بچوں کو اشتہار بازی اور نعرے بازی میں لگا دیتے ہیں۔ کسی بھی قوم یا خطہ کی حالت تب تک نہیں بدل سکتی
جب تک وہ قوم یا خطہ خود کو بدلنے کا عزم و ارادہ نہ کرلے ۔ سیمانچل کے نوجوانوں کے حالات کو
دیکھتے ہوئے یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے حالا ت تب تک نہیں بدل
سکتے جب تک یہاں کے نوجوان خود کو
بدلنے کے لئے کمر بستہ اور پر عزم
نہ ہوجائیں ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
****

Comments
Post a Comment
Well come to my blog.